کشمیر کا زندانی عالم و رہنما: ڈاکٹر قاسم فکتو

392

غلامی میں روح پژمردہ ہو جاتی ہے اور دین کے ساتھ تعلق منافقت کے ساتھ ہی باقی رہ سکتا ہے (مثلا عبادت اللہ کی، اطاعت بھارت بہادر کی، مسجد میں اللہ کی حاکمیت کا اقرار، دفتر میں بھارتی آئین کی حاکمیت کی اتباع)۔ غیرت دینی اور احساس ملی ختم ہو جاتا ہے۔ عزت نفس اور خودداری رخصت ہو جاتی ہے کیونکہ نیشن سٹیٹ کی اطاعت غیر مشروط اور لازمی ہوتی ہے۔ جان و مال اور عزت و آبرو بے وقعت بن جاتی ہے۔ غلامی پر حیوانات اور نباتات بھی آمادہ نہیں ہوتے۔ اس لیے جانور ہمیشہ پنجروں سے بھاگنے اور بیج زمین کی قید سے باہر نکلنے کی سعی میں رہتا ہے۔حقیقت یہ ہے فطرت انسانی سے بے خبر، انسان ہی اغیار کی غلامی پر آمادہ ہو سکتا ہے۔ المختصر غلامی میں سب کچھ میسر رہتا ہےمگر دین و ایمان کی قیمت پر، ضمیر اور غیرت کی نیلامی کے عوض اور ذہنی اور قلبی سکون سے محرومی کے عوض۔

یہ مبنی بر حقیقت الفاظ کشمیر کے صف اول کے مجاہد، دنیا  ئے جدید کے سب سے طویل مدت قید طے کرنے والے عالم و مفکر ڈاکٹر محمد قاسم فکتو کے ہیں۔ آئیے آج ڈاکٹر قاسم کی حریت سے آراستہ، علم سے پیراستہ اور جہد مسلسل سے مزین روشن سفر زندگی سے درس راہ لیتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد قاسم فکتو یعنی عاشق حسین فکتو 1967 میں  پیدا ہوئے۔ بچپن سے علم و تعلم سے شغف تھا لیکن 1987 میں ہندو عزائم کے مکمل آشکار ہونے پر ڈاکٹر قاسم نے تحریک آزادی کے باقاعدہ مجاہد کے طور پر اپنا سفر شروع کیا۔ 1990 میں محترمہ آسیہ اندرابی سے رشتہ ازدواج جوڑا اور  ان دونوں پروانوں نے مشعل آزادی کو ببانگ دہل بلند کیے رکھا۔ ڈاکٹر محمد قاسم پہلی دفعہ قتل کے جھوٹے کیس میں 1993میں گرفتار ہوئے ، جب وہ تحریک آزادی کے سرگرم کارکن تھے۔ انہوں نے جیل میں ہی ماسٹرز کیا اور اسلامک اینڈ سوشل سٹڈیز میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔ ان پر کئی جھوٹے کیس بنائے گئے اور کٹھ پتلی عدالتوں کے ذریعے سزائیں دلوائی گئیں۔

آپ کی قید کو آج 31 سال ہونے کو ہیں۔

 آپ پہلے قیدی ہیں جن کیلئے بھارت نے اپنے عمر قید کے قانون میں ترمیم کی اور تاحیات قید کی سزا کا اضافہ کیا۔ جیل میں ان پر بدترین تھرڈ ڈگری تشدد کیا گیا جس کے نتیجے میں ان کو کمر کے مہروں کے مسائل، بینائی میں کمی اور گلاکوما جیسے مسائل لاحق ہیں۔ اذیت کا کوئی طریقہ آپ کے عزم اور ذہن رسا کو متاثر نہیں کر سکا اور اس بات کی روشن مثال وہ 19 کتب اور بے شمار علمی مراسلات  ہیں جو انہوں نے دوران قید تحریر کیے ہیں۔ ڈاکٹر قاسم کے فرزندِ رشید احمد بن قاسم بتاتے ہیں کہ والد صاحب جیل میں مسلسل مطالعہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور ہر نئی کتاب پڑھنے کے بعد گھر بھجوا دی جاتی ہے،اب  نتیجتا ان تمام کتب پر مبنی ایک لائبریری گھر میں تشکیل پا چکی ہے۔ ڈاکٹر محمد قاسم امت مسلمہ کے ایک مظلوم عالم ہیں جن کے افکار دور رس سے بھارتی حکومت کا قلب و جگر لرزتا ہے اور وہ ہر ممکن طور پر اس آواز کو خاموش کرنے کے درپے ہے۔ آپ کی قید ناروا کو 30 سال گزر چکے ہیں۔ قید کے باعث اپنی ازدواجی زندگی کا محض 2 سال کا عرصہ اپنی شریک حیات کے ساتھ گزارا  ہے ، ان کے دو بیٹے ہیں جو کہ اپنے والد کا مشن جیل سے باہر کی دنیا میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

آپ کے علم کا دریا وسیع اور متاثر کن ہے۔ ڈاکٹر محمد قاسم نے جہاں اپنی کتاب بانگ میں اندلس، فلسطین اور کشمیر کی حالت زار پر سیر حاصل گفتگو کی ہے وہاں تفسیر احسن الحدیث میں اپنے فہم قرآن کا بھی پتہ دیا ہے۔ دیباچے میں لکھتے ہیں کہ  خواب میں  تدبر قرآن کے مؤلف مولانا امین احسن اصلاحی کی زیارت ہوئی ، جیل کی بیرک کا منظر تھا، انہوں نے تفسیر کے ابتدائی اوراق پڑھ کر فرمایا کہ یہ کام جاری رکھو۔ نتیجے میں آپ کو مزید شرح صدر حاصل ہوا اور یوں تفسیر پارہ عم کا کام مکمل ہوا۔

قاسم فکتو حریت کی کہکشاں کا ایک جگمگاتا ستارہ ہیں  اور ان کا دیا ہوا درس آزادی کشمیر کی نسل نو کو ازبر ہے۔ خدا سے دعا ہے کہ ان کی استقامت رنگ لائے اور ان کو جلد آزاد فضا کا سانس میسر آئے۔